Posted in Light

انجام

فرصت ہے کسے جو سوچ سکے پس منظر ان افسانوں کا

کیوں خواب طرب سب خواب ہوئے کیوں خون ہوا ارمانوں کا

طاقت کے نشے میں چور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی

مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا

پستے ہیں بالآخر وہ اِک دن اپنے ہی ستم کی چکّی میں

انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا

جب زخم لگیں تو چہروں پر پھولوں کا تبسم لہرائے

فرزانوں کا اتنا ظرف کہاں ، یہ حوصلہ ہے دیوانوں کا

اے صبر و رضا کے متوالو ، اُٹھو تو سہی ، دیکھو تو سہی

طُوفانوں کے مالک نے آخر رُخ پھیر دیا طوفانوں کا

اب آئے جو یار کی محفل میں جاں رکھ کے ہتھیلی پر آئے

اس راہ پہ ہر سُو پہرہ ہے کم فہموں کا نادانوں کا

آندھی کی طرح جو اُٹھے تھے وہ گرد کی صورت بیٹھے ہیں

ہے میری نگاہوں میں ثاقب ؔ انجام بلند ایوانوں کا

شاعر: ثاقب زیروی

تبصرہ کریں