فرصت ہے کسے جو سوچ سکے پس منظر ان افسانوں کا
کیوں خواب طرب سب خواب ہوئے کیوں خون ہوا ارمانوں کا
طاقت کے نشے میں چور تھے جو توفیق نظر جن کو نہ ملی
مفہوم نہ سمجھے وہ ناداں قدرت کے لکھے فرمانوں کا
پستے ہیں بالآخر وہ اِک دن اپنے ہی ستم کی چکّی میں
انجام یہی ہوتا آیا فرعونوں کا ہامانوں کا
جب زخم لگیں تو چہروں پر پھولوں کا تبسم لہرائے
فرزانوں کا اتنا ظرف کہاں ، یہ حوصلہ ہے دیوانوں کا
اے صبر و رضا کے متوالو ، اُٹھو تو سہی ، دیکھو تو سہی
طُوفانوں کے مالک نے آخر رُخ پھیر دیا طوفانوں کا
اب آئے جو یار کی محفل میں جاں رکھ کے ہتھیلی پر آئے
اس راہ پہ ہر سُو پہرہ ہے کم فہموں کا نادانوں کا
آندھی کی طرح جو اُٹھے تھے وہ گرد کی صورت بیٹھے ہیں
ہے میری نگاہوں میں ثاقب ؔ انجام بلند ایوانوں کا
شاعر: ثاقب زیروی