زندگی
حساب کی کتاب ہی تو ہے
بچپن سے بڑھاپے تلک
عروج سے زوال تلک ،
کبھی انجانے اتار چھڑھاو کو
اعتدال میں لانے کی سعی کرتے
لمحے ہاتھوں سے نکلے جائیں
تو کبھی یوں لگے جیسے
اک پیمانے سے دوسرے پیمانے میں
خود کو ڈھالنا ہی زندگی ہے
ویسے بھی تو دنیا کی نظریں
پہلے ماپتی ہیں پھر ہی بات کرتی ہیں
حقیقاًُ ہم سب چلتے پھرتے پیمانے ہی تو ہیں
اور زندگی حساب کی بڑی سی کتاب
جس میں وقت استاد کی طرح
امتحان پہلے لیتا ہے سبق بعد میں سکھاتا ہے
کہتے ہیں اچھا وہی جو دوسروں سے سبق سیکھ کر
غلطی نہ دہرائے بلکہ
نئے سبق سیکھ کر آگے نکل جائے
نئے پیمانوں کے ان دیکھے ناتمام سفر پر
جہاں ہر منزل کے بعد معلوم ہوتا ہے
اک منزل ابھی اور باقی ہے
اک پیمانہ اور بھرنا ہے
صفر کا سفر کہاں تمام ہوتا ہے