Posted in pencil

پیمانے

زندگی

حساب کی کتاب ہی تو ہے

بچپن سے بڑھاپے تلک

عروج سے زوال تلک ،

کبھی انجانے اتار چھڑھاو کو

اعتدال میں لانے کی سعی کرتے

لمحے ہاتھوں سے نکلے جائیں

تو کبھی یوں لگے جیسے

اک پیمانے سے دوسرے پیمانے میں

خود کو ڈھالنا ہی زندگی ہے

ویسے بھی تو دنیا کی نظریں

پہلے ماپتی ہیں پھر ہی بات کرتی ہیں

حقیقاًُ ہم سب چلتے پھرتے پیمانے ہی تو ہیں

اور زندگی حساب کی بڑی سی کتاب

جس میں وقت استاد کی طرح

امتحان پہلے لیتا ہے سبق بعد میں سکھاتا ہے

کہتے ہیں اچھا وہی جو دوسروں سے سبق سیکھ کر

غلطی نہ دہرائے بلکہ

نئے سبق سیکھ کر آگے نکل جائے

نئے پیمانوں کے ان دیکھے ناتمام سفر پر

جہاں ہر منزل کے بعد معلوم ہوتا ہے

اک منزل ابھی اور باقی ہے

اک پیمانہ اور بھرنا ہے

صفر کا سفر کہاں تمام ہوتا ہے

Posted in pencil

عصمتِ نسواں

“اچھی عورت” جب بری عورت ہونے کے مقام تک پہنچتی ہے تو اسے اپنے پیروں تلے زمیں خود بنانا ہوتی ہے تاکہ معاشرہ یہ کہہ کر خوفزدہ نہ کر سکے کہ ہم تمہارے پیروں تلے سے زمین کھینچ لیں گے۔ مگر یہ زمین بنانے میں وقت اور محنت صرف ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا اگر ہم اپنی بچیوں کو اوائل عمر سے ہی اپنی زمین خود بنانے دیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ محفوظ اور مضبوط ہوں گی بلکہ اسی میں انکی عزت اور وقار ہے۔

Posted in pencil

مگر یہ چشم حیراں جسکی حیرانی نہیں جاتی

انسان بظاہر سادہ سا نظر آنے والا وجود مگر اس کے افعال اور صلاحیتیں ہیں کہ حیران کن ہیں۔دنیا میں رنگ بھرنے والا،اور اپنے خوابوں کو سچ کرنے کی کوشش میں جٹا ہوا، کیا سے کیا کمالات دکھا رہا ہے۔ اگر کوئی ماضی سے اٹھ کر آئے تو حیرت سے ہی مر جائے، جبکہ مستقبل یقینا آج سے زیادہ حیران کن ہوگا۔

جیسے جیسے سائنسی کھوج بڑھتی جا رہی ہے انسانی دماغ کی صلاحیتوں کا پردہ بھی فاش ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کائنات کے اسرار سے نہ صرف پردہ اٹھ رہا ہے بلکہ خالق کائنات کی تخلیق کی نفاست اور بے انتہا منظم نظام کا ظہور ہو رہا ہے۔ کائنات کا اک اک ذرہ جتنی وسعت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے وہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ ایک ذرہ سے ساری کائنات کا کھوج لگائیں یا ساری کائنات کو کھوجتے ہوئے اک ذرہ میں ڈوب جائیں ہر طرف تخلیق کا حسن اور کمال ہی دکھائی دے گا۔ تمام اجزاء، اجسام، اجرام فلکی، کیمیائی ترکیب و ترتیب کمال تناسب کیساتھ اپنے اتار چڑھاو سے رنگ ڈھنگ بدلتی نظر آتی ہے۔ یہی بدلتے رنگ ڈھنگ کائنات میں تنوع اور اختلافی حسن کا باعث بنتے ہیں۔

جو کہ نہ صرف اس کائنات میں خوبصورتی کا سبب ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو انسانی زندگی میں پائی جانے والی کشمکش اور الجھاؤ سے جو گہرائی میسر آتی ہے وہ زندگی سے یکسانیت کو ختم کرتے ہوئے حیرانی اور تجسس کو قائم رکھنے کا سبب بھی بنی ہوئی ہے۔ جہاں یہ سادہ سا انسان ہر پل اپنے وجود کی نئی پرتوں سے پردہ اٹھا رہا ہے۔کبھی انسان اور کبھی حیوان،کہیں محبت اور احساس کا سمندر ، اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر ہمنواؤں کی تکلیف دور کرنے میں مگن تو دوسری طرف یہی خاک و خون کا پتلا ظلم و بربریت میں حیوانوں کو بھی مات دیتا نظر آتا ہے۔

اپنی ہی ذات کے اسرار اور نفس کی الجھنیں انسان کو انسان سے خوفزدہ کیے ہوئے ہیں۔ماضی و حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی کہ اس دنیا میں انسان کا انسان سے بڑا کوئی دشمن نہیں۔

نہیں معلوم مستقبل کیسا ہو ؟ انجام کار حیرانیوں کا سفر اختتام پزیر بھی ہوگا یا کوئی اور روپ دھار لے گا؟

سوچتے رہیے کہ تخیل ہمیشہ مستقبل میں رہا کرتا ہے۔

انسانی تخیل کو مدنظر رکھنے سے ، کسی حد تک ، آئندہ کے حالات کا اندازہ لگانا ممکن نظر ہے۔

Posted in pencil

خراشیں

گرد زمانہ،

گردشِ دوراں

بیتے و بہتے لمحوں کے بیچ

تیرگی و روشنی کی ادلتی بدلتی

طرفوں کے درمیاں،

ذرہ رائیگاں کی مانند

میرا شعور میرا وجود

کچھ پا رہا ہے یا کھو رہا ہے؟

جو سہہ رہا ہے

وہی مجسم ہو رہا ہے